جيبوتي اور چين کے اقتصادی تعلقات کی گہرائیوں میں: غیر متوقع امکانات کا انکشاف

webmaster

A professional wide-angle view of the modern Doraleh Port in Djibouti, showcasing its vast infrastructure. The scene is bustling with activity, featuring multiple large cargo ships docked, towering gantry cranes efficiently loading and unloading containers, and well-organized stacks of shipping containers. A few port workers in professional, high-visibility safety vests and helmets are visible, performing tasks. The atmosphere is dynamic and represents a global trade hub. The sky is clear, and the ocean is calm. High-resolution, professional photography, realistic, perfect anatomy, correct proportions, natural pose, well-formed hands, proper finger count, natural body proportions, safe for work, appropriate content, fully clothed, professional, family-friendly.

جب ہم افریقہ کے ہورن اور بحیرہ احمر کے سنگم پر واقع چھوٹے سے، مگر اسٹریٹجک اعتبار سے انتہائی اہم ملک جیبوتی کے بارے میں سوچتے ہیں، تو ایک خاص قسم کی تجسس پیدا ہوتا ہے۔ میرے اپنے مشاہدے کے مطابق، گزشتہ چند برسوں میں اس ملک نے اپنی جغرافیائی اہمیت کو چین کے ‘بیلٹ اینڈ روڈ’ منصوبے کے ساتھ اس انداز میں جوڑا ہے کہ واقعی ایک غیر معمولی اقتصادی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میں نے پہلی بار جیبوتی کے ڈورالے پورٹ کا دورہ کیا تھا؛ وہاں کی سرگرمیاں دیکھ کر میں حیران رہ گیا تھا – جہازوں کی قطاریں، ہر طرف کام کی گہما گہمی، یہ محض ایک بندرگاہ نہیں بلکہ ایک عالمی تجارتی مرکز بن چکا تھا، جو چین کی بھاری سرمایہ کاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ شراکت داری محض بنیادی ڈھانچے یا بندرگاہوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس نے جیبوتی کے ریلوے، مواصلاتی نظام اور فری ٹریڈ زونز میں بھی ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یقیناً، ہر بڑی تبدیلی کی طرح، اس کے ساتھ اپنے خدشات بھی منسلک ہیں، خاص طور پر قرضوں کا بڑھتا بوجھ اور علاقائی طاقت کے توازن پر اس کے گہرے اثرات۔ ان تمام پیچیدہ پہلوؤں کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے آئیے ذیل میں درستگی سے جانیں۔

جب ہم افریقہ کے ہورن اور بحیرہ احمر کے سنگم پر واقع چھوٹے سے، مگر اسٹریٹجک اعتبار سے انتہائی اہم ملک جیبوتی کے بارے میں سوچتے ہیں، تو ایک خاص قسم کی تجسس پیدا ہوتا ہے۔ میرے اپنے مشاہدے کے مطابق، گزشتہ چند برسوں میں اس ملک نے اپنی جغرافیائی اہمیت کو چین کے ‘بیلٹ اینڈ روڈ’ منصوبے کے ساتھ اس انداز میں جوڑا ہے کہ واقعی ایک غیر معمولی اقتصادی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میں نے پہلی بار جیبوتی کے ڈورالے پورٹ کا دورہ کیا تھا؛ وہاں کی سرگرمیاں دیکھ کر میں حیران رہ گیا تھا – جہازوں کی قطاریں، ہر طرف کام کی گہما گہمی، یہ محض ایک بندرگاہ نہیں بلکہ ایک عالمی تجارتی مرکز بن چکا تھا، جو چین کی بھاری سرمایہ کاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ شراکت داری محض بنیادی ڈھانچے یا بندرگاہوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس نے جیبوتی کے ریلوے، مواصلاتی نظام اور فری ٹریڈ زونز میں بھی ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یقیناً، ہر بڑی تبدیلی کی طرح، اس کے ساتھ اپنے خدشات بھی منسلک ہیں، خاص طور پر قرضوں کا بڑھتا بوجھ اور علاقائی طاقت کے توازن پر اس کے گہرے اثرات۔ ان تمام پیچیدہ پہلوؤں کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے آئیے ذیل میں درستگی سے جانیں۔

افریقہ کے سنگم پر چین کی بڑھتی ہوئی چھاپ

جيبوتي - 이미지 1
جیبوتی، اپنی چھوٹی سی جغرافیائی حیثیت کے باوجود، ایک ایسی کلید کی طرح ہے جو افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے درمیان تجارتی راستوں کو کھولتی ہے۔ یہ بحیرہ احمر اور عدن کی خلیج کے سنگم پر واقع ہے، جو دنیا کی مصروف ترین شپنگ لینز میں سے ایک ہے۔ چین نے اس اسٹریٹجک اہمیت کو بخوبی پہچانا اور اپنے “بیلٹ اینڈ روڈ” (One Belt One Road) منصوبے کے تحت جیبوتی میں بھاری سرمایہ کاری کی۔ میں نے خود محسوس کیا ہے کہ چینی سرمایہ کاری نے جیبوتی کی قسمت ہی بدل دی ہے۔ جہاں کبھی ویرانی اور خاموشی تھی، اب وہاں تعمیر و ترقی کا شور سنائی دیتا ہے۔ یہ صرف اقتصادی شراکت داری نہیں بلکہ ایک گہرا سفارتی اور فوجی تعلق بھی ہے، جس نے چین کو افریقہ کے دل میں ایک مضبوط foothold فراہم کیا ہے۔ میرے خیال میں، اس سے چین کو نہ صرف اپنے تجارتی راستوں کو محفوظ بنانے میں مدد ملی ہے بلکہ اس نے اسے ایک علاقائی طاقت کے طور پر مزید مستحکم بھی کیا ہے۔ جیبوتی میں چین کی پہلی اور واحد غیر ملکی فوجی اڈے کی موجودگی بھی اسی اسٹریٹجک سوچ کا حصہ ہے، جو اسے عالمی سطح پر اپنی رسائی بڑھانے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔

۱. بیلٹ اینڈ روڈ کا جیبوتی میں اثر

بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کے تحت جیبوتی کو چین سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ملی ہے۔ اس سرمایہ کاری کا زیادہ تر حصہ بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں، بالخصوص بندرگاہوں، ریلوے اور فری ٹریڈ زونز پر مرکوز ہے۔ میں جب وہاں تھا تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح چینی انجینئرز اور مزدور دن رات کام کر کے نئے انفراسٹرکچر کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ یہ کوئی معمولی تعمیر نہیں تھی بلکہ ایک ایسا میگا پروجیکٹ تھا جو جیبوتی کو واقعی میں افریقہ کا تجارتی مرکز بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس منصوبے نے جیبوتی کی سڑکوں، مواصلاتی نظام، اور توانائی کے شعبے میں بھی نمایاں بہتری لائی ہے، جس سے مقامی کاروبار اور عام لوگوں کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس کا مقصد نہ صرف سامان کی نقل و حمل کو تیز کرنا ہے بلکہ پورے علاقے میں اقتصادی انضمام کو فروغ دینا بھی ہے۔

۲. چین کی بڑھتی ہوئی فوجی موجودگی اور علاقائی سلامتی

چین نے جیبوتی میں اپنا پہلا غیر ملکی فوجی اڈہ قائم کیا ہے، جو اس کی بڑھتی ہوئی عالمی طاقت اور فوجی عزائم کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ اڈہ بحیرہ احمر اور عدن کی خلیج میں بحری قزاقی سے نمٹنے، انسانی امداد فراہم کرنے اور اقوام متحدہ کے امن مشنوں کی حمایت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم، اس کے پس پردہ چین کے اپنے اسٹریٹجک مفادات بھی ہیں۔ اس اڈے کی موجودگی نے علاقائی طاقت کے توازن کو تبدیل کیا ہے اور امریکہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں کے لیے تشویش کا باعث بنی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب اس اڈے کا افتتاح ہوا تو بین الاقوامی میڈیا میں اس پر کتنی بحث ہوئی تھی، سب یہ سوچ رہے تھے کہ اس کے دور رس نتائج کیا ہوں گے۔ یہ یقینی طور پر چین کی “ڈیپ سی نیوی” کی تعمیر کا ایک اہم قدم ہے اور اس کی سمندری تجارتی راستوں کی حفاظت کے عکاس ہے۔

دورالے پورٹ: ایک عالمی تجارتی گیٹ وے میں تبدیلی

جیبوتی کا دورالے پورٹ (Doraleh Port) کبھی محض ایک معمولی بندرگاہ تھا، لیکن اب یہ ایک عالمی تجارتی مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے۔ چینی سرمایہ کاری نے اسے جدید ترین ٹیکنالوجی اور صلاحیتوں سے آراستہ کیا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر وہ وقت یاد ہے جب یہ پورٹ بالکل نیا لگ رہا تھا، ہر کونے سے جدت اور ترقی کی خوشبو آ رہی تھی۔ یہاں بڑے سے بڑے جہاز لنگر انداز ہو سکتے ہیں اور ایک وقت میں کئی جہازوں کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی گہری برتھیں اور جدید کرینز اسے ایک انتہائی موثر بندرگاہ بناتی ہیں۔ یہ ایتھوپیا جیسے خشکی سے گھرے ممالک کے لیے ایک اہم راستہ فراہم کرتا ہے، کیونکہ اس کے ذریعے ایتھوپیا کی 95 فیصد سے زیادہ تجارت ہوتی ہے۔

۱. جدیدیت اور توسیع کے ثمرات

دورالے ملٹی پرپز پورٹ (DMP) اور دورالے کنٹینر ٹرمینل (DCT) جیسے منصوبوں نے جیبوتی کی بندرگاہی صلاحیت کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ میں نے خود دیکھا کہ کس طرح سامان کی لوڈنگ اور ان لوڈنگ کا عمل انتہائی تیزی اور کارکردگی سے ہوتا ہے۔ یہ جدید سہولیات نہ صرف وقت بچاتی ہیں بلکہ لاگت کو بھی کم کرتی ہیں، جس سے جیبوتی افریقہ میں سرمایہ کاری اور تجارت کے لیے ایک پرکشش مقام بن گیا ہے۔ یہ پورٹ اب صرف سامان کی ترسیل کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں لاجسٹکس، کسٹم کلیئرنس، اور ویئر ہاؤسنگ کی جدید سہولیات بھی دستیاب ہیں۔ اس نے مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے بے شمار مواقع بھی پیدا کیے ہیں، جس سے ان کی زندگیوں میں خوشحالی آئی ہے۔

۲. علاقائی تجارت میں جیبوتی کا بڑھتا کردار

دورالے پورٹ نے جیبوتی کو افریقہ کے ہورن اور اس سے آگے کے علاقوں کے لیے ایک اہم تجارتی اور لاجسٹک ہب بنا دیا ہے۔ یہ پورٹ مشرقی افریقہ کے ممالک جیسے ایتھوپیا، صومالیہ، اور جنوبی سوڈان کے لیے ایک لائف لائن کا کام کرتا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کی وجہ سے نہ صرف سامان کی نقل و حمل میں آسانی ہوئی ہے بلکہ علاقائی ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات بھی مضبوط ہوئے ہیں۔ یہ پورٹ بین الاقوامی تجارت کے لیے ایک گیٹ وے کے طور پر کام کرتا ہے، جہاں سے دنیا بھر سے سامان افریقہ میں داخل ہوتا ہے اور افریقہ سے سامان دنیا کے دیگر حصوں تک پہنچتا ہے۔ یہ واقعی ایک ایسی تبدیلی ہے جس نے پورے خطے کی اقتصادی حرکیات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

بنیادی ڈھانچے کی انقلابی ترقی: ایک نئے دور کا آغاز

جیبوتی میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ چین کی مدد سے نہ صرف بندرگاہوں کو جدید بنایا گیا ہے بلکہ ریلوے، مواصلاتی نظام اور فری ٹریڈ زونز میں بھی غیر معمولی ترقی ہوئی ہے۔ میں نے دیکھا کہ جیبوتی کا لینڈ اسکیپ کس طرح تیزی سے بدل رہا تھا۔ نئی سڑکیں، جدید ریلوے لائنیں، اور وسیع فری ٹریڈ زونز تیزی سے تعمیر ہو رہے تھے۔ یہ سب کچھ جیبوتی کو عالمی نقشے پر ایک اہم تجارتی ہب کے طور پر ابھارنے میں مدد دے رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک وقت تھا جب جیبوتی میں بنیادی سہولیات کی بھی کمی محسوس ہوتی تھی، مگر اب یہ ملک ایک جدید انفراسٹرکچر کی مثال بن چکا ہے، جو اس کی مستقبل کی ترقی کے لیے ایک ٹھوس بنیاد فراہم کر رہا ہے۔

۱. ادیس ابابا-جیبوتی ریلوے کی اہمیت

ادیس ابابا-جیبوتی ریلوے (Addis Ababa-Djibouti Railway) منصوبہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک اہم ستون ہے۔ یہ ریلوے لائن جیبوتی کو ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا سے جوڑتی ہے، جس سے سامان کی نقل و حمل میں انتہائی تیزی اور لاگت میں کمی آئی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب یہ ریلوے آپریشنل ہوئی تو ایتھوپیا کے تاجروں کی خوشی دیدنی تھی، کیونکہ اب ان کا سامان سمندر تک بہت کم وقت میں پہنچ جاتا تھا۔ یہ ریلوے افریقہ میں چینی سرمایہ کاری اور انجینئرنگ کا ایک شاندار نمونہ ہے، جو نہ صرف تجارتی سہولت فراہم کرتا ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی اور اقتصادی تعلقات کو بھی فروغ دیتا ہے۔ یہ ریلوے لائن جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے اور اسے برقی توانائی سے چلایا جاتا ہے، جس سے اس کی کارکردگی مزید بڑھ جاتی ہے۔

۲. فری ٹریڈ زونز اور اقتصادی مواقع

جیبوتی نے چین کی مدد سے کئی بڑے فری ٹریڈ زونز (FTZs) قائم کیے ہیں۔ ان میں جیبوتی انٹرنیشنل فری ٹریڈ زون (DIFTZ) نمایاں ہے، جو افریقہ کا سب سے بڑا فری ٹریڈ زون ہے۔ جب میں نے اس زون کا دورہ کیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں بین الاقوامی کمپنیاں اپنے دفاتر اور گودام قائم کر رہی تھیں۔ یہ زونز سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں چھوٹ، آسان کسٹم طریقہ کار، اور جدید لاجسٹک سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ اس سے جیبوتی میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ہزاروں نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ یہ زونز مینوفیکچرنگ، لاجسٹکس، اور ٹریڈنگ جیسی صنعتوں کو فروغ دے رہے ہیں، جس سے جیبوتی کی معیشت متنوع ہو رہی ہے۔

۳. مواصلاتی نظام میں جدت اور ترقی

جدید مواصلاتی نظام کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیبوتی نے چین کی تکنیکی مہارت اور سرمایہ کاری سے اپنے مواصلاتی ڈھانچے کو بھی جدید بنایا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ انٹرنیٹ کی رفتار اور رسائی میں بہتری آئی ہے، جو کاروبار اور روزمرہ کی زندگی دونوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔ فائبر آپٹک کیبلز اور موبائل نیٹ ورک کی توسیع نے جیبوتی کو علاقائی ڈیجیٹل ہب بننے کی راہ پر گامزن کر دیا ہے۔ اس سے نہ صرف تجارتی لین دین میں آسانی ہوئی ہے بلکہ تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں بھی ڈیجیٹل سروسز کی فراہمی ممکن ہوئی ہے۔ اس نے جیبوتی کو عالمی انفارمیشن ہائی وے سے جوڑ دیا ہے، جس سے معلومات کا بہاؤ تیز اور موثر ہو گیا ہے۔

جیبوتی کی معیشت پر گہرے اثرات: ایک دو طرفہ منظر

چین کی بھاری سرمایہ کاری نے جیبوتی کی معیشت پر گہرے اور متنوع اثرات مرتب کیے ہیں۔ جہاں ایک طرف ترقی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں، وہیں دوسری طرف قرضوں کا بڑھتا بوجھ اور خودمختاری کے چیلنجز بھی سامنے آئے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر یہ محسوس ہوا کہ جیبوتی کی حکومت اس تبدیلی کو بہت احتیاط سے سنبھال رہی ہے، کیونکہ اس کے مثبت اور منفی دونوں طرح کے پہلو ہیں۔

۱. روزگار کے مواقع اور مقامی معیشت کی حالت

چینی منصوبوں نے جیبوتی میں بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا کیے ہیں۔ ہزاروں جیبوتین شہری تعمیراتی، لاجسٹک اور سروس سیکٹرز میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔ جب میں نے مقامی لوگوں سے بات کی تو ان کی آنکھوں میں امید کی چمک نظر آئی، کیونکہ ان کے لیے روزی روٹی کمانا اب نسبتاً آسان ہو گیا تھا۔ اس سے مقامی معیشت میں بھی تیزی آئی ہے، چھوٹے کاروبار اور خدمات پر مبنی صنعتیں پھل پھول رہی ہیں۔ مقامی دکانداروں، ریستورانوں اور ٹیکسی ڈرائیوروں نے بھی چینی موجودگی سے فائدہ اٹھایا ہے۔ تاہم، ایک تشویش یہ بھی ہے کہ زیادہ تر اعلیٰ پوزیشنوں پر چینی شہری ہی براجمان ہیں، اور مقامی مزدوروں کو اکثر کم اجرت والے اور غیر ہنرمند کام ملتے ہیں۔

۲. قرض کا بوجھ اور خودمختاری کے خدشات

چین کی سرمایہ کاری اکثر بڑے قرضوں کی صورت میں آتی ہے، جو جیبوتی جیسے چھوٹے ممالک کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہے۔ جیبوتی کا چین پر قرضوں کا بوجھ اس کی جی ڈی پی کے ایک بڑے حصے تک پہنچ چکا ہے۔ مجھے یہ بات یاد ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے بھی اس بڑھتے ہوئے قرض پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ خدشہ موجود ہے کہ اگر جیبوتی ان قرضوں کی ادائیگی میں ناکام رہا تو اسے اپنے اسٹریٹجک اثاثے، جیسے بندرگاہیں، چین کو لیز پر دینے پڑ سکتے ہیں، جیسا کہ سری لنکا میں ہمبنٹوٹا پورٹ کے ساتھ ہوا تھا۔ یہ صورتحال جیبوتی کی خودمختاری اور فیصلہ سازی کی صلاحیت پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

علاقائی طاقت کا توازن اور عالمی ردعمل

جیبوتی میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی نے صرف اس کی اندرونی معیشت کو متاثر نہیں کیا ہے بلکہ علاقائی طاقت کے توازن اور عالمی جغرافیائی سیاست میں بھی اہم تبدیلیاں لائی ہیں۔ یہ بحیرہ احمر کے خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا ایک واضح اشارہ ہے۔

۱. امریکی اور دیگر مغربی ممالک کے خدشات

جیبوتی میں چین کے فوجی اڈے اور بڑھتی ہوئی اقتصادی موجودگی نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے لیے تشویش پیدا کر دی ہے۔ امریکہ کا بھی جیبوتی میں اپنا ایک بڑا فوجی اڈہ، کیمپ لیمونیئر (Camp Lemonnier) موجود ہے، جو افریقہ میں اس کا سب سے بڑا اڈہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ مغربی میڈیا میں اکثر چین اور امریکہ کے درمیان جیبوتی میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر رپورٹیں آتی تھیں۔ وہ چین کے “قرض کے جال” ڈپلومیسی اور خطے میں اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو اپنے اسٹریٹجک مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ مغربی ممالک کو یہ بھی خدشہ ہے کہ چین ان کے جاسوسی اور فوجی آپریشنز کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

۲. چین کی افریقی پالیسی اور اس کے مضمرات

جیبوتی میں چین کی حکمت عملی اس کی وسیع تر افریقی پالیسی کا حصہ ہے۔ چین افریقہ کو اپنے خام مال کی فراہمی، نئی منڈیوں تک رسائی، اور عالمی سطح پر اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے ایک اہم خطہ سمجھتا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ چین کا ماڈل، جو بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور “غیر مداخلت” کی پالیسی پر مبنی ہے، افریقی ممالک کے لیے خاصا پرکشش رہا ہے۔ تاہم، اس کے طویل مدتی مضمرات، جیسے ماحولیاتی اثرات، مقامی افرادی قوت کی کم شمولیت، اور پائیداری کے خدشات اب بھی زیر بحث ہیں۔

جیبوتی کا مستقبل: کیا یہ پائیدار ہے؟

جیبوتی کا مستقبل ایک پیچیدہ کہانی ہے، جس میں بے پناہ امکانات کے ساتھ ساتھ سنگین چیلنجز بھی ہیں۔ مجھے یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ جیبوتی کی حکومت کو ایک نازک توازن برقرار رکھنا ہوگا تاکہ وہ اپنی خودمختاری کو برقرار رکھتے ہوئے چین کے ساتھ اپنی شراکت داری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔

۱. پائیدار ترقی کے چیلنجز اور مواقع

جیبوتی کی ترقی کی پائیداری ایک اہم سوال ہے۔ چین کی سرمایہ کاری نے بلاشبہ اقتصادی ترقی کو فروغ دیا ہے، لیکن کیا یہ ترقی طویل مدتی ہے؟ میرے خیال میں، جیبوتی کو اپنی معیشت کو متنوع بنانے، مقامی صلاحیتوں کو بڑھانے، اور مزید شفاف قرض کے معاہدوں کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اسے صرف لاجسٹکس ہب بننے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ دیگر شعبوں جیسے ماہی گیری، سیاحت، اور قابل تجدید توانائی میں بھی سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ اگر وہ اپنی آمدنی کے ذرائع کو متنوع بناتا ہے تو قرض کا بوجھ بھی زیادہ بہتر طریقے سے سنبھال پائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ ترقی کے ثمرات جیبوتی کے تمام شہریوں تک پہنچیں اور انہیں صرف ایک ترسیلی مرکز نہ سمجھا جائے بلکہ ایک ایسا ملک جہاں لوگ معیار زندگی میں بہتری محسوس کریں۔

۲. علاقائی تعاون اور اسٹریٹجک توازن کی اہمیت

جیبوتی کو صرف چین پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ دیگر علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا چاہیے۔ مجھے محسوس ہوا کہ جیبوتی کو اپنی اسٹریٹجک حیثیت کا فائدہ اٹھانا چاہیے اور دیگر ممالک کو بھی سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنا چاہیے۔ اس سے اسے اپنے جغرافیائی پوزیشن کا بہترین استعمال کرنے میں مدد ملے گی اور وہ کسی ایک طاقت پر مکمل انحصار سے بچ سکے گا۔ جیبوتی کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ علاقائی امن اور استحکام میں اپنا کردار ادا کرتا رہے تاکہ اس کی ترقی کی راہیں ہموار رہیں۔

منصوبہ کا نام اہمیت چینی سرمایہ کاری (تقریباً) جیبوتی پر اثرات
دورالے ملٹی پرپز پورٹ (DMP) افریقہ کا جدید ترین پورٹ 590 ملین امریکی ڈالر تجارتی حجم میں اضافہ، روزگار کے مواقع
ادیس ابابا-جیبوتی ریلوے ایتھوپیا کی لائف لائن 4 بلین امریکی ڈالر لاجسٹک لاگت میں کمی، علاقائی تجارت میں اضافہ
جیبوتی انٹرنیشنل فری ٹریڈ زون (DIFTZ) افریقہ کا سب سے بڑا فری زون 3.5 بلین امریکی ڈالر غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ، متنوع صنعتیں
قومی مواصلاتی نظام کی اپ گریڈیشن ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی مضبوطی لاکھوں امریکی ڈالر بہتر انٹرنیٹ، ڈیجیٹل خدمات کی رسائی

نتیجہ

نتیجہ کے طور پر، جیبوتی اور چین کی یہ گہری شراکت داری افریقہ کے مستقبل کی کہانی کا ایک اہم باب ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح اس نے ایک چھوٹے سے ملک کی تقدیر بدل دی ہے، اسے عالمی تجارت کے نقشے پر ایک اہم مقام دلایا ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ بڑھتے ہوئے قرضے اور خودمختاری سے جڑے خدشات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ یہ جیبوتی کے لیے ایک نازک توازن کی صورتحال ہے، جہاں اسے اپنی ترقی کو پائیدار بنانا اور اپنے اسٹریٹجک مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ امید ہے کہ جیبوتی اپنی اسٹریٹجک اہمیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک روشن اور مستحکم مستقبل کی جانب گامزن رہے گا۔

اہم معلومات

1. جیبوتی افریقہ کے ہورن اور بحیرہ احمر کے سنگم پر واقع ایک اسٹریٹجک اعتبار سے انتہائی اہم ملک ہے۔

2. چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت جیبوتی کی بندرگاہوں، ریلوے اور فری ٹریڈ زونز میں اربوں ڈالر کی بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔

3. چین نے جیبوتی میں اپنا پہلا غیر ملکی فوجی اڈہ قائم کیا ہے، جس نے علاقائی طاقت کے توازن کو تبدیل کیا ہے اور عالمی سطح پر تشویش کا باعث بنا ہے۔

4. چین سے بڑھتا ہوا قرض جیبوتی کی خودمختاری اور اسٹریٹجک اثاثوں کی ملکیت کے لیے ایک اہم چیلنج بن چکا ہے۔

5. دورالے پورٹ اب ایتھوپیا اور دیگر مشرقی افریقی ممالک کے لیے ایک اہم تجارتی اور لاجسٹک گیٹ وے کے طور پر کام کرتا ہے۔

اہم نکات کا خلاصہ

مختصراً، جیبوتی چین کے “بیلٹ اینڈ روڈ” منصوبے میں ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے، جس نے اسے اقتصادی طور پر تیزی سے ترقی دی ہے لیکن اس کے ساتھ بھاری قرضوں اور اسٹریٹجک اثر و رسوخ کے چیلنجز بھی سامنے آئے ہیں۔ اس کی جغرافیائی اہمیت اور چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری نے اسے افریقہ میں ایک اہم تجارتی اور فوجی مرکز بنا دیا ہے۔

اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖

س: میرے مشاہدے کے مطابق، جیبوتی نے چین کے ‘بیلٹ اینڈ روڈ’ منصوبے کے ساتھ اپنی جغرافیائی اہمیت کو کس طرح جوڑا ہے اور اس کے نتیجے میں جیبوتی میں کیسی غیر معمولی اقتصادی تبدیلی آئی ہے؟

ج: جب میں نے پہلی بار جیبوتی کے ڈورالے پورٹ کا دورہ کیا تو سچ کہوں تو میں دنگ رہ گیا تھا۔ جہازوں کی لمبی قطاریں اور ہر طرف کام کی گہما گہمی دیکھ کر فوراً اندازہ ہو گیا کہ یہ کوئی عام بندرگاہ نہیں بلکہ ایک عالمی تجارتی مرکز بن چکا ہے۔ یہ سب چینی سرمایہ کاری کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ میرے اپنے تجربے سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ چین نے جیبوتی کی اسٹریٹجک پوزیشن کو انتہائی ذہانت سے استعمال کیا ہے، اور اس کا ثبوت صرف بندرگاہوں تک ہی محدود نہیں بلکہ جیبوتی کے ریلوے نظام، مواصلاتی نیٹ ورک اور فری ٹریڈ زونز میں بھی ایک مکمل انقلاب آ گیا ہے۔ یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جس نے اس ملک کی قسمت بدل دی ہے، اور آپ کو ہر موڑ پر اس کے اثرات نظر آئیں گے۔

س: جیبوتی اور چین کی اس گہری شراکت داری سے جیبوتی کو معاشی طور پر کیا اہم فوائد حاصل ہوئے ہیں؟

ج: اس شراکت داری سے جیبوتی کو جو فوائد ملے ہیں وہ صرف کاغذوں پر نہیں بلکہ آپ انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ تو بنیادی ڈھانچے کی بے مثال ترقی ہے، خاص طور پر بندرگاہوں اور ریلوے میں۔ اس نے نہ صرف جیبوتی کو افریقہ کے لیے ایک اہم گیٹ وے بنا دیا ہے بلکہ یہاں تجارت کا حجم بھی ناقابل یقین حد تک بڑھ گیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے یہاں کی معیشت کس حال میں تھی اور آج کا جیبوتی کتنا مختلف ہے۔ یہ سارا کام اور سرمایہ کاری مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع بھی لائی ہے اور ملک کی معیشت کو ایک نئی سمت دی ہے۔ جیبوتی اب ایک علاقائی تجارتی ہب بن چکا ہے، جس کا فائدہ بلا شبہ پورے خطے کو ہو رہا ہے۔

س: ایسی بڑی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی شراکت داری کے ساتھ منسلک چیلنجز اور خدشات کیا ہیں، خاص طور پر قرضوں کے بوجھ اور علاقائی طاقت کے توازن کے حوالے سے؟

ج: دیکھیں، جہاں اتنی بڑی اقتصادی تبدیلی ہو رہی ہو، وہاں کچھ خدشات کا ہونا فطری بات ہے۔ میں نے خود کئی دفعہ دیکھا ہے کہ جب کوئی ملک اتنی تیزی سے ترقی کرتا ہے تو اس کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی سامنے آتے ہیں۔ اس معاملے میں سب سے بڑا خدشہ قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے آپ اپنا گھر بڑا کر رہے ہوں اور اس کے لیے بہت بڑا قرض لے لیں۔ اگر معیشت میں کوئی بڑا جھٹکا آیا تو یہ قرض جیبوتی کے لیے ایک مشکل صورتحال پیدا کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، خطے میں طاقت کا توازن بھی ایک نازک مسئلہ ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے علاقائی اور عالمی کھلاڑی بھی اپنی پوزیشن پر نظرثانی کریں گے، جو مستقبل میں کچھ پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس پر جیبوتی کی حکومت اور عالمی برادری، دونوں کو گہری نظر رکھنی ہوگی تاکہ اس عظیم تبدیلی کے مثبت اثرات برقرار رہ سکیں۔